1. دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

قرض پر نفع حاصل کرنے کاحکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علماے کرام اور مفتیان شرع اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک گاہک دکان دار سے پچاس لاکھ روپے کے چاول خریدتا ہے ، لیکن گاہک کے پاس نقد پیسے نہیں ہیں ،اب درمیان میں تیسرا شخص آکر کہتا ہے کہ آپ کی جگہ پیسے میں دیتا ہوں ، لیکن ایک مہینہ بعد مجھے اپنے پچاس لاکھ روپے  واپس کرنے کے ساتھ چاول کے ہر کلو میں بیس روپے اضافی  بھی دینے ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اضافی پیسے لینا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

            واضح رہے کہ قرض دینے والا اگر قرض میں کوئی ایسی شرط لگائے جس کی وجہ سے اس کو فائد ہ ہو تو اس طرح معاملہ کرنا سود کے زمرے میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

            صورتِ مسئولہ کے  مطابق اگر گاہک  دکاندار سے چاول خریدے اور درمیان میں تیسرا شخص  چاول کی رقم پچاس لاکھ روپے دکاندار کو دے دے اور یہ  شرط لگائے کہ ایک متعین مدت کے بعد مجھے پچاس لاکھ روپے لوٹانے کے ساتھ ہر کلو میں بیس روپے بھی دینے ہوں گے تو یہ در اصل قرض پر نفع لینا ہے جو شرعا حرام ہے۔ تاہم اس کی متبادل جائز صورت یہ ہے کہ قرض دینے والا اُن اشیا کو دکان دار سے خود خرید کر ان پر قبضہ کرنے کے بعد گاہک پر متعین نفع کے ساتھ ادھار بیچ دے۔

 

قال اللہ تعالیٰ:﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾(البقرة:275)

قال:(كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر(رد المحتارعلى الدرالمختار،كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية،ج:8،ص:295،دارالكتب العلمية)

لأن للأجل شبها بالمبيع؛ ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل۔(الهداية، كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:3، ص:78،مكتبه رحمانيه)


ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431726


فتوی پرنٹ