1. دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

سمگلنگ کے ضبط شدہ مال میں حکومت کا دائره کار

سوال

حکومت کےلیے سمگلنگ   کے مال کو ضبط کرنے کے بعد ان ضبط شدہ اموال میں کس حد تک تصرف کرنے  کا حق حاصل ہے؟

جواب

               واضح رہے کہ سمگلنگ چونکہ ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے اس لیےحکومت کی طرف سے اس کو قانونا ًممنوع قرار دیا گیا ہے، چنانچہ سمگلنگ نہ کرنا ہر مسلمان کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہےاس کے باوجود اگر کوئی شخص سمگلنگ کرے تو حکومت  اس سے  سمگل شدہ مال ضبط کرنے کا اختیار رکھتی ہے چنانچہ سمگلنگ کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے قوانین و ضوابط مقرر ہیں اور ان اصول و ضوابط کے تحت حکومت یا تو ضبط شدہ مال کو نیلام کر دیتی ہے اور لوگوں پر فروخت کر کےاس سےحاصل شدہ رقم کو حکومتی خزانے میں جمع کر دیتی ہے جبکہ بعض اوقات سمگلنگ کے سد باب یا ضبط شدہ مال کے مضر صحت ہونے کی صورت میں اس کو ضا ئع  بھی کر دیا جاتا ہے اور بعض مرتبہ مقررہ ٹیکس وصول کر کے چھوڑ  دیا جاتا ہے۔

             فقہا ئےکرام ؒکی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی یا حاکم کے لیے تعزیر بالمال کی گنجائش ہے اور مذکورہ  صورت میں حکومت جو تصرفات کرتی ہے یہ بھی دراصل تعزیر بالمال کی صورت ہے۔ لہذا مفاد عامہ کی رعایت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے تعزیر بالمال كے طور پر سمگل شدہ اشیامیں مندرجہ بالا تصرفات کی شرعا گنجائش ہے۔

 

عن أنس، عن أبي طلحة رضي الله عنهما أنه قال: يا نبي الله، إني اشتريت خمرا لأيتام في حجري، قال:أهرق الخمر، واكسر الدنان.(جامع الترمذی ، ابواب البیوع، باب ما جاء فی بیع الخمر والنہی عن ذلک ،ج: 1 ص374:)

سمعت من ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي ذلك ،أو الولي جاز۔(البحرالرائق ،كتاب الحدود ،فصل في التعزير ،ج4، ص41)

يجوزالتعزيربأخذالمال وهومذهب أبي  يوسف،وبه قال مالك، ومن قال :إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط على مذاهب الأئمة نقلا واستدلالا، وليس بمسلم دعوىٰ نسخها كيف وفعل الخلفاء الراشدين، وأكابر الصحابة لها بعد موته -صلى الله عليه وسلم- مبطل لدعوى نسخها، والمدعون للنسخ ليس معهم كتاب ولا سنة ولا إجماع يصحح دعواهم۔(معين الحكام، ص:231 المكتبة القدس)


ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431724


فتوی پرنٹ