مرغ کی آنتوں کی خریدو فروخت کے رائج طریقہ کا حکم

سوال کا متن:

مرغی فروش اکثر  مرغ کی آنتیں ڈیلر کو فروخت کرتے ہیں جس کا طریقہ  یہ ہوتا ہے کہ ڈیلر چند دن دکاندار کی روزمرہ فروخت کی مقدار کا اندازہ لگا لیتا ہے پھر اس حساب سے دکاندار سے معاہدہ کر لیتا ہے کہ تم جتنی مرغیاں فروخت کرو اس کی آنتیں مجھے دو گے جس کے بدلے میں تمھیں اتنی رقم دوں گا تو کیا  اس طرح سے مجھول مقدار میں آنتوں کی بیع کرنا جائز ہے یا نہیں نیزمذکورہ مبیع کے اوصاف بیان کر لینے کے بعد مذکورہ عقد جائز ہو سکے گا یا نہیں۔

جواب کا متن:

        شریعت مطہرہ کی رو سے کسی چیز کے بیچنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیز موجود ہو اور بائع اس كی حوالگی پر قادر ہو البتہ اگر کوئی مبيع ايسی ہو جو بوقت عقد موجود تو نہ ہو لیکن اس کی جنس ،نوع ، صفت اور مقدار وغیرہ بیان کرنےسے اس کی تعیین ہو سکے اور عقد میں قیمت پیشگی ادا کرنے کی شرط ہو تو فقہی اصطلاح کی رو سے یہ بیع سلم کہلاتا ہے ۔ بیع سلم میں ضروری ہے کہ مبیع ایسی چیز ہو جو اوصاف  بیان کرنے سے متعین ہو سکتی ہو چنانچہ اگر کوئی چیز جنس ،نوع، صفت اور مقدار بیان کرنے کے بعد بھی پوری طرح  واضح نہ ہو سکے تو اس میں بیع سلم درست نہ ہو گی ۔

            صورت مسئولہ میں چونکہ مبیع بوقت عقد موجود نہیں  ہوتا اور بعد میں حوالگی پر بھی مبیع کی مقدار معلوم نہیں  کی جاتی اس لیے یہ عقد جائز نہیں نیز بطور متبادل مرغیوں کی آنتوں میں  بیع سلم  بھی نہیں ہو سکتا،  البتہ یہ صورت جائز ہے کہ پہلے صرف بیع کا وعدہ ہو اور بعد میں آنتیں اٹھاتے وقت وزن کر کے قیمت طے کر لی جائے ۔

 

(منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم، وماله خطر العدم كبيع نتاج النتاج، (بدائع الصنائع، كتاب البيوع ،فصل فيما يرجع الى المعقود عليه، ج:7،ص:542)

(والرابع) أن يكون ‌معلوم ‌القدر بالكيل أو الوزن أو العدد أو الذرع، كذا في البدائع ( الفتاوى الهنديه ، کتاب البيوع ، باب السلم، ج:3، ص:172)

ولا يجوز السلم في العدديات المتفاوتة من الحيوان، والجواهر ۔ ۔ ۔ لتفاوت فاحش بين جوهر وجوهر، ولؤلؤ ولؤلؤ، وحيوان وحيوان، وكذا بين جلد وجلد، ورأس ورأس في الصغر، والكبر، والسمن، والهزال (بدائع الصنائع ، كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المسلم، ج:7، ص:168)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431723