سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ شک اور وسوسہ کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی،اسی طرح صرف طلاق کے الفاظ کہنے سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ طلاق کےلیے ضروری ہےکہ باقاعدہ بیوی کی طرف نسبت کرتے ہوئےطلاق کے الفاظ کہے جائیں۔
صورت مسٔولہ میں اگرسائل کے بیان کےمطابق سائل کو بار بار طلاق کا وسوسہ آتا ہو،تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی،اس طرح اس نے جو طلاق کے الفاظ کہے ہیں،اگر اس نے باقاعدہ بیوی کی طرف نسبت کرتے ہوئے طلاق کے الفاظ کہے ہوں تو طلاق واقع ہو گئی ہے،ورنہ صرف طلاق کے الفاظ کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
وقال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل موسوس لأنه يحدث بما في ضميره وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس(الدر المختار مع رد المحتار،باب المرتد:ج4،ص:224)
(قوله لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق.(الدر المختار مع ردالمحتار،كتاب الطلاق:ج:3،ص373)