فصل کاشت کرنےکے ساتھ درخت لگانے کی شرط

سوال کا متن:

ایک شخص زمین کا مالک ہے ،اس نےکسی (مزارع)کو زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس کھیت میں فصل بھی کاشت کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کھیت میں پھل کے درخت بھی لگائے،درخت جب پھل کے قابل ہو جائیں تو دس سال تک اس کے پھل دونوں کے درمیان شریک ہوں گے اور دس سال بعد درخت مع زمین مالک کو واپس کیے جائیں گے۔اب پوچھناہےکہ یہ عقد جائز ہے یا نہیں ؟اگر ناجائز ہو تو اس  کو شریعت کے مطابق کس طرح حل کیا جائے؟

جواب کا متن:

        شریعت کی اصطلاح میں مزارعت "مخصوص شرائط کے ساتھ پیدوار کے کچھ حصے کےعوض کھیتی باڑی کے معاملہ"کو کہتے ہیں،جبکہ مساقات"کسی کو پھلدار درخت  دیکھ بال کے لیےدے کر اس کے پیداوار میں شریک ہونے"کوکہاجاتاہے۔ ان کے جملہ شرائط میں سے ہے کہ عقد کے وقت پیداوار میں شرکت کا تذکرہ موجود ہو اوردونوں کا حصہ  اسی پیداوار میں سے ہو۔نیزکسی عقد میں ایسی شرط لگانے سے عقد فاسد ہو جاتاہے؛ جو مقتضائے عقد کے خلاف ہو، اور اس میں عاقدین یا معقود علیہ کافائدہ ہو۔

        صورت مسؤلہ کے مطابق مالک زمین کافصل کاشت کرنے کے ساتھ یہ شر ط لگانا کہ وہ اس کے ساتھ درخت بھی لگائے،  چونکہ یہ عقد مزارعت سے ہٹ کر ایک ایسی زائد شرط ہے،جس میں مالک زمین کا فائدہ ہے،لہذااس سے عقد (مزارعت)فاسد ہوگا۔

تاہم اگر دونوں عقد الگ الگ طور پر طے کیے جائیں یعنی فصل کاشت کرنےکا الگ طور پر عقد کرے اور درخت لگانے کا الگ طور پر عقد کرے اوران کے پیداوار میں شرکت ہو تو پھر دونوں معاملے درست ہونگے یا اگر الگ الگ عقد نہ ہوبلکہ فصل کاشت کرنے کے ساتھ شرط لگائے بغیر مزارع اپنی رضامندی سے درخت لگانے کا اہتمام کرےیا عقد طے ہونے کے بعدزمین کا مالک مزارع سےدرخت لگانے کی گزارش کرے اور مزارع اس کو قبول کرےتو اس کی شرعا گنجائش ہوگی ۔

 

المزارعة لغة: مفاعلة من الزرع. وفي الشريعة: هي عقد على الزرع ببعض الخارج.(الهداية، كتاب المزارعة،99/7)

(والمساقات هي المعامله)۔۔۔۔۔فهي معاقدة دفع الأشجار والكروم إلى من يقوم بإصلاحها على أن يكون لهم سهم معلوم من ثمرها۔(العناية شرح الهداية،كتاب المساقات،59/6)

وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه---يفسده۔(الهداية، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد،88/3)

وأما الذي يرجع إلي الخارج من الزرع فأنواع:منهاأن يكون مذكورا في العقد ۔۔۔۔۔ ومنهاأن يكون ذلك البعض من الخارج معلوم القدر من النصف أوالثلث أوالربع أونحوه۔(الفتاوى الهندية،كتاب المزارعةالباب الأول،272/5)

ولو دفع إليه أرضا بيضاء فيها نخيل فقال أدفع إليك هذه الأرض تزرعها ببذرك وعملك على أن الخارج من ذلك بيني وبينك نصفان وأدفع إليك ما فيها من النخل معاملة على أن تقوم عليه وتسقيه وتلقحه فما خرج من ذلك فهو بيننا نصفان أو قال لك منه الثلث ولي الثلثان وقد وقتا لذلك سنين معلومة فهو جائز لأنه لم يجعل أحد العقدين هاهنا شرطا في الآخر۔( الفتاوى الهندية،كتاب المزارعةالباب السادس،290/6)

رجل دفع كرمه أو أرضه معاملة أو مزارعة إلى إنسان وذلك الإنسان يلتزم إلقاء السرقين وإصلاح المسناة وحفر الأنهار وكبس الشقوق فلو شرط يفسد ولو سكت لم يلزم ولو وعد ربما لا يفي فالوجه فيه أن يستأجره على ذلك كله بعد الإعلام بأجرة يسيرة غير مشروطة في العقد فيصح ذلك ويلزمه ولا يفسد العقد كذا في جواهر الفتاوى.(الفتاوى الهندية، كتاب المزارعة، الباب الثالث في الشروط في المزارعة،281/5)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431800