قبرستان میں جوتے پہن کر چلنا

سوال کا متن:

 قبرستان میں ایک بورڈ پر لکھا گیا تھا ، کہ حضور اکرم ﷺ نے  قبرستان میں جوتے لانے سے منع فرمایا ہے، کیا یہ حدیث درست ہے؟

جواب کا متن:

             شریعت میں قبرستان کے ادب و احترام کا حکم دیا گیا ہے، اسی وجہ سے قبروں کے اوپر چلنے اور بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔

             صورت مسئولہ میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اسے امام نسائیؒ نے اپنی کتاب "سنن نسائی" میں یوں ذکر کیا ہے، کہ بشیر بن الخصاصیۃؓ بیان کرتے ہیں، کہ میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا ۔ ۔ ۔ تو آپ علیہ السلام نے ایک شخص کو قبرستان میں جوتوں سمیت چلتے دیکھا، تو فرمایا:"اے رنگ دے کر صاف کیے ہوئے چمڑے کے جوتے پہننے والے ! انہیں اتار دے۔" اس حدیث سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان میں جوتوں سمیت نہیں چلنا چاہئے تاکہ قبروں کا احترام قائم رہے، لیکن اس کے معارض ایک اور روایت ہے، جسے امام بخاری ؒنے صحیح البخاری میں حضرت انسؓ کے طریق سے نقل کیا ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں کہ" میت چلنے والوں کے جوتوں کی آواز کو سنتا ہے۔"اسی وجہ سے فقہاء کرام اور حضرات محدثین کے ہاں قبرستان میں جوتے پہن کر چلنے میں کوئی کراہت نہیں ہے، اور حدیث میں قبرستان میں جوتے لانے سے جو ممانعت فرمائی ہے، اس کی تاویل یہ بتلائی ہے کہ شاید ان جوتوں پر گندگی لگی ہوئی تھی، جوآداب قبرستان کے خلاف ہے ، یا وہ جوتے اہل تکبر و تفخر کے ساتھ خاص تھے، اور قبرستان جائے عبرت ہے، اسی وجہ سےمنع فرمایا ۔

 

عن بشير بن نهيك، أن بشير ابن الخصاصية قال: كنت أمشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔ ۔ ۔ فرأى رجلا يمشي بين القبور في نعليه، فقال: يا صاحب السبتيتين ألقهما۔ ( سنن النسائى، كتاب الجنائز، باب كراهية المشي بين القبور، ج:1، ص: 308 )

عن أنس رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم۔ ۔ ۔ الخ ( صحيح البخارى، كتاب الجنائز، باب الميت يسمع خفق النعال، ج:1، ص:178 )

وذهب الجمهور الى عدم كراهة لبس النعال مطلقاّ ۔ ۔ ۔ وأجابوا عن حديث الباب بأنه إنما أمره بالخلع لإحتمال ان يكون بهما قذر، أو لاختياله بهما، لأن النعال السبتية إنما يلبسها أهل الترفة والتنعم، فأحب أن يكون دخول المقابر على زي التواضع، ( ذخيره العقبىٰ فی شرح المجتبیٰ، كتاب الجنائز، باب كراهية المشي بين القبور، ج:20، ص: 70)

والمشي في المقابر بنعلين لا يكره عندنا ( الفتاوى الهندية، كتاب الصلوة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن، ج:1،ص: 228 )

واستدل بہ علی جواز المشي بین القبور بالنعال (فتح الباری ، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، ج:3، ص: 567)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431793