سوال کا متن:
جواب کا متن:
شریعتِ مطہرہ کی رو سے اس بات کی اجازت ہے کہ کسی شخص کی ملکیتی زمین کو دوسرا شخص بطورِ عاریت ( بلا عوض منافع )حاصل کرکے یابطور اجارہ حاصل کرکے اس پرکوئی تعمیر کرے تعمیر کے بعد اس کو خودبھی استعمال کرسکتا ہےاوراس کو کرایہ پربھی دےکر اس کے عوض ملنے والی رقم کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔
صورت مسئولہ کے مطابق اگر بکر ، زید کی زمین پر زیدکے لیے دکانیں اس شرط پر تعمیر کرتا ہو کہ تعمیر پر جتنا خرچہ ہوجا ئے تو میں اس کے علاوہ کچھ اضافی رقم لوں گا، تومحض اس طرح عقد شرعاً جائز نہیں ، کیونکہ یہ رقم اگر بطور قرض خرچ کی ہو تو اس پر اضافی رقم لینا سود ہے ، اور اگر اپنے لیے تعمیر کرکے اس پر فروخت کرہاہو تو اس میں قیمت مجھول ہے، البتہ اس کے جواز کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ:
- بکر دکانوں پر خرچ ہونےوالا تمام میٹریل خریدے اور پھر وہ زید پر نفع کے ساتھ ادھار فروخت کرلےاور ادھار کی مدت متعین ہو۔
- یا بکرزید سے زمین عاریتاًلے کر اس پر دکانیں اپنے لیے تعمیر کرےاور پھر ان دکانوں کو زید پر نفع کے ساتھ ادھار فروخت کرلےاور ادھار کی مدت متعین کرلی جائے۔
قال ومن اشترى غلاما بألف درهم نسيئة فباعه بربح مائة ولم يبين فعلم المشتري فإن شاء رده وإن شاء قبل لأن للأجل شبها بالمبيع ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل۔(الهداية، كتاب البيوع،باب المرابحة والتولية،ج:3،ص:78)
وصحّ بثمنٍ حالٍّ وبأجلٍ معلومٍ۔(كنز الدقائق، كتاب البيوع،ص: 228)
تمليك المنفعة بغير عوض سميت عارية لتعريها عن العوض۔(المبسوط للسرخسي، كتاب العارية،ج:18،:13)
كل قرض جر نفعا حرام۔(شرح الأشباه والنظائر، كتاب المداينات،ج:3،ص:254)