شوہر، دو بھائیوں اور چاربہنوں کے درمیان تقسیم میراث

سوال کا متن:

(1)فریدہ فوت ہو ئی ہے، جس کے ورثا میں سے شوہر(اشرف) دو بھائی(محمدشفیع، اشفاق احمد) اور چار بہنیں (فہمیدہ، شکریہ، کلثوم، رشیدہ) زندہ ہیں،ان کے درمیاں تقسیم میراث کس طرح ہوگی؟(2)نیز مرحومہ کی اپنی اولاد نہیں تھی، ان کی  پرورش میں  کسی اورکے بچے  تھے،تو کیا ان بچوں کو مرحومہ  کی میراث  ملے گی یا نہیں ؟

جواب کا متن:

میــــ(فریدہ)(16)ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت

 شوہر     بھائی        بھائی        بہن     بہن    بہن     بہن

اشرف  محمدشفیع  اشفاق احمد  فہمیدہ   شکریہ  کلثوم   رشیدہ

 8          2          2          1        1         1        1

          بشرط صدق وثبوت اگرمرحومہ کےمذکورہ  بالا ورثا  کے علاوہ اور کوئی قریبی وارث زندہ موجود نہ ہو تو بعد از ادا ئے حقوق متقدمہ علی الارث  مرحومہ کا ترکہ سولہ (16) حصوں میں تقسیم کرکے شوہر(اشرف) کو8/16حصے، دو بھائیوں (محمدشفیع،اشفاق احمد) میں سے ہرایک کو2/16حصے اور چاربہنوں(فہمیدہ، شکریہ، کلثوم، رشیدہ) میں سے ہر ایک کو1/16 حصہ ملے گا۔

2-لےپالک کامیراث میں  کوئی حق  نہیں ہوتا۔ تاہم  اگر ورثا اپنی رضامندی سے لے پالک کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، لیکن دینا لازم نہیں، لہذاصورت مسئولہ کے مطابق لےپالک بچوں کامرحومہ کی میراث میں کوئی حق نہیں بنتا۔

 

وقال الله تعالى:﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيل﴾۔(الأحزاب:4)

قال الله تعالى:﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ﴾۔(النساء:12)

فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا ثم الأخ لأب وأم۔(الفتاوی الهندیة، كتاب الفرائض،الباب الثالث،ج:6، ص:451)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431818